یہ مثل مشہور ہے کہ رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں۔ رشتے بے شک آسمانوں پر بنتے ہیں لیکن انہیں نبھایا زمین ہر ہی جاتا ہے۔ تربیت کی کمی کی وجہ سے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اکثر آسمان پر بنے ہوئے رشتوں کو ٹوٹنے سے نہیں روک پاتے ۔
یہ ایک عمومی مشاہدہ ہے کہ ذہنی ہم آہنگی ‘ ماحول اور مزاج کی مماثلت کامیاب شادی شدہ زندگی کے لئے بہت ضروری تصور کی جاتی ہے‘اس کے لئے شوہر اوربیوی کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا بھی لازمی شرط ہے ۔کامیاب شادی شدہ لوگ وہی ہوتے ہیں جو اپنے شریک حیات کی پوشیدہ خوبیوں کا سراغ لگا کر اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور دوستانہ رویہ قائم رکھتے ہوئے اس رشتے کو دیانتداری سے نبھاتے ہیں۔ نکتہ چینی ‘ تنقید اور اپنے شریک حیات کو اپنی مرضی کے قالب میں ڈھالنے کی بے سروپا جدو جہد وہ سیاہی ہے جو ازدواجی زندگی کی خوشیوں پر طلاق کا دھبہ لگا دیتی ہے۔
گھر کی شادمانی میں شوہر کا کردار
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بہت سے مرد حضرات دُہرا رویہ رکھتے ہیں‘مراد یہ کہ باہر ان کی شخصیت کچھ اور ہوتی ہے اور گھر میں کچھ اور‘ گھر میں منہ بنائے روکھے روکھے رہتے ہیں لیکن دوستوں کی محفل میں جا کر چہکنے لگتے ہیں۔ ان کے مزاج کی ساری خوشگواری باہر ہی دکھائی دیتی ہے ‘ گھر والوں کا اس میں کو ئی حصہ نہیں ہوتا۔ کیا یہ نامناسب بات نہیں ہے؟ مرد اپنے دوستوں حتیٰ کہ اجنبیوں کے سامنے تو اپنی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن جو ہمارے اپنے ہیں جن سے ہمارا سب سے مضبوط اور سب سے گہرا رشتہ ہے ان کے سامنے ہمیں چپ لگ جاتی ہے۔
ایک مضبوط ازدواجی بندھن کا راز یہ بھی ہے کہ جس طرح آپ باہر جا کر اپنے دوستوں کے ساتھ خوش مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہیں بالکل ویسا ہی گھر میں اپنی شریک حیات کے سامنے بھی کریں۔کیونکہ آپ کے مزاج کی خوشگواریت کا سب سے زیادہ حق دار وہی ہے۔اگر ہم گھر میں بھی مسکرائیں ہنسیں بولیں مزیدار باتیں کریں دلچسپ واقعات اور لطیفے سنائیں تو یہ زندگی کا بہت بہتر اور نارمل رویہ ہوگا۔
عورت اپنے گھر کو جنت کیسے بنائے!
گھر کی رونق اور خوشیوں کازیادہ انحصار عورت پر ہوتا ہےگھر کی خوشیاں اور رونقیں کیسے قائم رکھنی ہیں اس کے لئے دانالوگوں نے کچھ اصول بیان کیے ہیں جو تجربات کے بعد سو فیصد درست ثابت ہوئے ۔ خوشگوار ازدواجی زندگی کے یہ چند اصول اپنے سامنے رکھیں۔ ان پر عمل کرتےرہیں تو زندگی میں ایک خوشگواریت کا احساس پیدا ہو جائے گا‘ گھر جنت کا نمونہ بن جائے گا محلات میں رہنے والوں کو وہ سکون اور خوشی میسر نہ ہو گی جو ان اصولوں پر کاربند ہوکر آپ کو ملے گی۔ شوہر پر ہمیشہ تنقید نہ کیا کر یں۔ آپ دونوںایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی اور شریک زند گی ہیں۔لہٰذا شوہر کو بھی یہ احساس نہ دلائیں کہ وہ نااہل اور غیر ذمہ دار ہے۔اس پر تنقید کرنے یا اسے لیکچر سنانے کی بجائےذہانت سے کام لیتے ہوئے اسے احساس دلائیں کہ آپ کیا کہنا چاہ رہی ہیں۔ اس کا مواز نہ دوسروں کےساتھ بھی مت کریں۔ یہ ایک طریقے سے اس کی تذلیل ہوگی۔اگر آپ خوش رہنا چاہتی ہیں تو پھر اپنی تو قعات بھلا دیں کیونکہ توقعات ہی مایوسی اور محرومی کا احساس دلاتی ہیں۔ اگر آپ کو توقع کے بغیر کوئی چیز ملے گی توآپ بے حد خوش ہوں گی اور اگر وہ چیز آپ کو نہیںملے گی تو پھر آپ کو خوشی محسوس نہیں ہوگی۔
شادی کے بعد کی جانےوالی بڑی غلطی
جب وہ گھر لوٹے تو فوراً ہی اس سے گفتگو کاآغاز نہ کریں۔یہ وہ لمحہ ہوتا ہے کہ جب اسے ذہنی سکون کی ضرورت ہوتی ہے۔ بات چیت شروع کرنے کے لئے درست لمحے کا انتظار کریں۔ گفتگو کاآغاز اس کی دلچسپی کے موضوع سے کیجئے ۔ پھر آپ، اپنے موضوعات پر گفتگو شروع کرسکتی ہیں۔بجائے اس کے کہ ہمیشہ اسے مور دِالزام ٹھہرایاجائے اسے سراہے جانے کے احساس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کبھی جھگڑا ہو جائے تو بعد میں اس کی صلاحیتوں کی تعریف کریں۔ اگر وہ آپ کے لئےچھوٹی باتیں اور کام ( چاہے معمولی ہی کیوں نہ ہوں )کرنا شروع کر دیتا ہے تو اس کے اس اقدام کو سراہیںاور ان باتوں کی قدر کر یں۔ نہ منہ بسوریں اور نہ شکایت کر یں ۔ہمیشہ د لکش دکھائی دینے کی کوشش کر یں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ شادی کے بعداکثر خواتین خودکونظر انداز کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ وہ اپنے ر نگ روپ اور نکھار کے بارے میں پروانہیں کرتیں اور پھر وہ اپنے شوہروں کی ادھر ادھر تا نک جھا نک اور بے وفائی کی شکایت کرتی ہیں۔ اپنے شوہر کے لئے خود کو زیادہ سے زیادہ دلکش اور جاذب بنانے کی کوشش کر یں۔ فکرمندی اور ڈپریشن سے خودکو روکھا اور غیر دلکش نہ بنائیں۔ جب بھی خاوند گھر لوٹے تو مسکراتے ہوئے اس کا استقبال کریں۔ اپنے شوہر کے پسندیدہ کھانے پکائیں۔ اس کی پسند کی خوشبو کا انتخاب کریں۔ اپنی خواب گاہ کو اور اپنے آپ کو ہمیشہ پرکشش رکھیں اور اپنے شوہر کو اپنی موجودگی سے محبت کا احساس دلائیں۔گھر کی آرائش میں اپنے تصور اور اپنے تخلیقی ذہن کی مدد سے پر ذوق انداز میں نئی چیزوں کا اضافہ کرتی رہیں۔اسے بھر پور محبت اور توجہ دیں۔ بچے کی پیدائش کے بعد بیوی اکثر شوہر پر توجہ دینا بند کر دیتی ہے۔ اس کا مرکز توجہ عام طور پر اس کا بچہ ہوتا ہے۔ جب شوہر کواپنی بیوی کی توجہ اور محبت نہیں ملتی تو پھر وہ دیگر عورتوں سےاسی توجہ اور محبت کو طلب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔شادی شدہ زندگی میں ازدواجی تعلقات نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر دونوں رفیق ایک دوسرے کی رضامندی سے لطف اندوز ہوں تو اس میں خلاف معمول یا غیر فطری کوئی بات نہیں-لہٰذا آپ بھی برابرکی شریک کار رہا کریں۔کبھی بھی بحث مباحثے کی عادت اپنانے کی کوشش نہ کریں۔شوہر اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ ان کی بیویاں بحث کر نے والی یا جارحیت پسند ہوں۔ فہم و فراست اور شعور سے کام لیں۔ خاموش پرسکون رہیں اور صبرسے کام لیں۔کسی بھی صورت حال میں ضرورت سے زیادہ ر د عمل کا اظہار نہ کر یں اپنی فہم وفراست اور دانشمندی سے کام لیتے ہوئے آپ چیزوں کو یا صورت حال کوبہتر انداز سے تبدیل کرنے کے قابل ہوں گی۔شوہر کے والدین اور خاندان کے دیگر افراد کو بھر پورعزت دیں۔ اپنے شوہر سے ان کی کوئی برائی نہ کر یں وہ ان باتوں کو کبھی بھی پسند نہیں کرے گا۔اگر وہ کسی تقریب یا سالگرہ کے موقع پر آپ سے نیک تمناؤں اور دلی خواہشات کا اظہار کرنا بھول جائے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ آپ سے پیارنہیں کرتا۔ اس سے جھگڑا کرنے کی بجائے اس کی ذاتی مصروفیات کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اسےاپنی مدد کی پیشکش کر یں‘ اس بات کی توقع کے بغیر کہ آپ کو بھی بدلےمیں کچھ ملے گا لیکن اس سے آپ شوہر کا بھر پور اعتماد حاصل کرلیں گی ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں